آج میں ایک ایسی چیز پر گفتگو کرنے جا رہا ہوں جو آزادی کے فورا بعد سے ہی نفسیاتی طور پہ پاکستانی معاشرے اور مجموعی طور پر پوری قوم کا ایک بہت بڑا بحران رہا ہے، شناختی بحران۔ پاکستانی قوم شناختی بحران کی شدید شکار ہے۔ آزادی ملتے ساتھ ہی پاکستانی عوام اور ان کی سیاسی قیادت اپنی اصل شناخت کو کئی کھو بیٹھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس بحران کو نہ تو کبھی پارلیمنٹ یا کسی دوسرے مناسب پلیٹ فارم پر اٹھایا گیا اور نہ ہی اس کو کبھی حل کرنے کا سوچا گیا۔ شاید اس کی ایک وجہ اس کی حساس اور متنازعہ نوعیت ہے۔ یہ ایک ایسی چیز کو چھیڑتی ہے جو اس ملک کی بنیاد پر سوال اٹھانے کے مانند ہے۔ اس کا معاشرے کے جذباتی اور مذہبی لگاؤ سے گہرا تعلق ہے۔ ہم بحیثیت قوم متعدد شناختوں کے دہانے کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں مختلف مکتبہ فکر موجود ہیں اور ان میں سے ایک مکتبہ فکر کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی قوم امت مسلمہ اور ایک مسلم قومیت یعنی کہ امت واحد کا حصہ ہے اور یہی ہماری اصل پہچان، ثقافت اور شناخت ہے، یہ مکتبہ فکر دو قومی نظریے پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا مکتبہ فکر بھی موجود ہے جو کہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان ایک جدید قومی ریاست ہے۔ یہ مکتبہ فکر پولیٹیکل سائنس، سوشیالوجی، ماہر بشریات اور دیگر سماجی سائنس کے مضامین کی روشنی میں ایک قوم کا تصور کرتا ہے۔ جس کا تعین مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی علاقائی ثقافت، تہذیب، نسل اور زبان کی بنیاد پر طے کرتے ہیں۔ ایک تیسرا مکتبہ فکر بھی ہے جو کہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے نہ تو ہم عربی ہیں اور نہ ہی ایرانی، ہم ہندوستان کا حصہ تھے اور بنیادی طور پر ہندوستانی شناخت اور ثقافت ہی ہماری اصل پہچان ہے۔ کسی بھی ملک میں سیاسی تبدیلیوں کا معاشرے میں اور مجموعی طور پر پوری قوم کے نظریات پر بہت گہرہ اثر پڑتا ہے۔ آج میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مختلف ادوار کا ذکر گہرائی میں کروں گا جہاں ہم مختلف حکمرانوں کے مختلف نظریات اپنانے پر گفتگو کریں گے۔ نظریاتی طور پر، ہاں ہم ایک اسلامی جمہوریہ ہیں جس نے مسلم قومیت کی بنیاد پر اپنی آزادی حاصل کی۔ تاریخ میں یہ وہ پہلی مسلم اکثریتی ریاست ہے جس کو اسلام کے نام پر تعمیر کیا گیا ہے۔ لیکن عملی طور پر اس ملک کے قانونی امور اور معاشرتی سانچے میں اسلام اور اس کے نفاذ کو کبھی بھی عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔
نظریاتی طور پر جیسا کہ ہم نے تسلیم کیا کہ پاکستان ہمیشہ سے ہی ایک اسلامی ریاست رہا ہے اور یہی بات ہمیں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ جہاں اسلامی ضابطہ حیات پر عمل کیا جائے گا، جہاں اسلامی حکم کو نافذ کیا جائے گا۔ جہاں ریاست میں حاکمیت صرف اللہ کے پاس ہو گی نہ کہ عوام کے پاس۔ جہاں اسلام قانونی اور اسلامی نظام انصاف ہوگا اور معاشرہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی طریقوں پر سختی سے عمل کرے گا۔ لیکن بدقسمتی سے عملی طور پر اس ملک میں کبھی بھی پوری طرح سے اسلام کو نافذ نہیں کیا گیا۔ پاکستان نے اپنی سیاسی تاریخ میں اپنی شناخت اور سیاسی تجربات کے بہت سے مراحل دیکھے ہیں۔ ہم نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ملک میں سوشلزم کی تحریک بھی دیکھی ہے، جہاں انہوں نے یہ کہا تھا کہ؛ "اسلام ہمارا مذہب ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے"۔ بھٹو حکومت میں ۱۹۷۳ کے آئین کو تشکیل دیا گیا اور پورے ملک میں نافذ کر دیا۔ بنیادی طور پر یہ آئین اپنی فطرت کے لحاظ سے اسلامی تھا جس میں اسلامی دفعات موجود تھیں اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ لوگوں کے بجائے ریاست میں اللہ کو حاکمیت دی گئی۔ ریاست کے سرکاری مذہب کو اسلام قرار دیا گیا اور صرف ایک مسلمان ہی صدر اور وزیر اعظم کی نشستوں کا اہل ہو گا۔ ختم نبوت کا قانون بھی اسی آئین میں بھٹو کی حکومت کے تحت منظور کیا گیا۔ اور سب سے اہم چیز یہ کہ قرارداد مقاصد کو اس آئین کا حصہ بنا دیا گیا جس کو بہت سے لوگوں کی نظر میں ہماری اصل شناخت سمجھا جاتا ہے۔
پھر ہم اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں ۱۹۷۷ میں جنرل ضیاء کا فوجی مارشل لاء بھی نظر آتا ہے۔ جس میں پورے ملک میں زبردستی اسلامائزیشن کی گئی۔ جہاں جنرل ضیاء نے اپنا خودساختہ اسلامی شریعتی نظام جبری طور پر مسلط کیا جس کے تحت کھلے میدانوں میں اپنے سیاسی مخالفوں اور آمریت مخالف صحافیوں کو کوڑے بھی مارے جاتے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی خاتون نیوز کاسٹرز اور پاکستان ٹیلی ویژن ڈراموں کی خاتون اداکاروں کو ڈوپٹہ لینے پر مجبور کیا گیا۔ جنرل ضیا کی آمریت کے بعد ہم نے بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے دور بھی دیکھے۔ بینظیر بھٹو قدرن لبرل اور فطری طور پر بائیں بازو کی سیاست میں کاربند تھی۔ اور میاں نوازشریف دائیں بازو کی سیاسی شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ اس کے بعد ۱۹۹۹ میں نواز شریف کی حکومت کے بعد جنرل مشرف نے اپنا مارشل لاء نافذ کر دیا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کے یہ مارشل لاء جنرل ضیاء کے مارشل لاء سے بالکل مختلف تھا۔ اس دور میں جنرل مشرف کے روشن خیال اعتدال کا بہت چرچا تھا۔ پاکستان میں سیکولرزم بہت تیزی سے پھیل رہا تھا۔ پاکستانی معاشرہ بہت تیزی سے مغربی ثقافت اور تہذیب کو اپنا رہا تھا۔ اور ان سب کی ایک یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ اس دور میں پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ کا قریبی اور اہم حمایتی تھا۔
۲۰۱۳ میں جب نواز شریف کی حکومت واپس اقتدار میں آئی تو پچھلے دوروں کے مقابلے میں نواز شریف نے بائیں بازو کی سیاست کو ترجیح دی اور کہا کہ "اب میں نظریاتی ہو گیا ہوں"، یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان کی دائیں بازو کی سیاست نظریاتی نہیں تھی؟ برحل ۲۰۱۸ کےانتخابات میں عمران خان کے "نئے پاکستان" اور تبدیلی کا نعرہ مشہور ہوا جس کی وجہ سے وہ اقتدار میں بھی آگئے۔ حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے ریاست مدینہ کی طرز پر ایک فلاحی ریاست بنانے کا بھی فیصلہ کیا لیکن اس کو ابھی تک عملی جامہ بنانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ ہمیں ایک طرف پاکستان کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر عورت مارچ کی ریلی نکلتی نظر آتی ہے جو کہ سیکولرزم اور لادینیت کو فروغ دیتے نظر آ رہے ہیں اور دوسری جانب اسلامی بنیاد پرست ملک کی مین سٹریم سیاست میں مقبول ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ایک طرف شریعت کے نفاذ کا نعرہ ہے اور دوسری جانب مغربی ایجنڈے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ترکی ڈرامہ ارطغرل غازی کی پاکستان میں نشریات اور وزیراعظم عمران خان کا عوام کو اس کو دیکھنے کا مشورہ بھی ایک بڑے تنازعے کا شکار بن چکا ہے۔ اور اس تنازعے کی وجہ بھی شناختی بحران ہے کہ آیا خلافت عثمانیہ کی اسلامی تاریخ اور ان کے ہیروز کا پاکستان اور پاکستانی عوام سے کیا تعلق۔ آیا ہم اپنی اسلامی ثقافت اور اسلامی تاریخ کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں یا پھر اپنے علاقے کی تاریخ اور ثقافت کو، جس کو لسانیت کی بنیاد اور تناظر میں دیکھا جاتا ہے نہ کہ مزہب کی۔ میری پوری گفتگو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ شدید شناختی بحران کا شکار ہے اور پاکستان کے سیاسی تجربوں نے اس بحران کو مزید فروغ دیا ہے۔ ہم نے مختلف سیاسی دور میں مختلف نظریات کو ابھرتے اور حکمرانی کرتے دیکھا ہے جس کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے کا نوجوان اپنے مستقبل، نظریے اور شناخت کو لے کر بوکھلاہٹ اور گمراہی کا شکار ہے۔ اس قوم کو ابھی تک یہ ہی نہیں معلوم کہ اس کا نظریہ کیا ہے۔ ہم صرف امید کر سکتی ہیں کہ مستقبل میں اللہ تعالی ہمیں ایک مضبوط سیاسی قیادت عطا کرے جو کہ پاکستان کے اصل نظریے کو ملک میں نافذ کر سکے، جو کہ علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کا نظریہ تھا۔ آمین!
0 Comments
Please comment if you do not agree with any of the content of this article